Sunday, April 5, 2015

گالیاں اور فحش منظر کشی

گالیاں اور فحش منظر کشی

ایک شریف و نفیس انسان کیلئے  گندگی میں اٹا پبلک ٹوائیلٹ کا استعمال جہاں مشکل ترین مرحلہ ہے وہیں اسکے  در و  دیواروں پر نگاہ ڈالنا بھی کم روح فرسا نہیں۔  اکثر  پبلک ٹوائیلٹس میں صفائی تو نظر نہیں آتی البتہ اس کے در و دیواروں پہ  گالیوں اور فحش منظر کشی کے ذریعے اخلاقیات کا جنازہ نکلتا نظر آتا ہے۔  لیکن اس قوم کی اخلاقیات کا جنازہ تو پبلک ٹوائیلٹ سے لیکر پارلیمنٹ تک ہر جگہ نکل رہاہے‘ جو کھلے عام جرأت نہیں کر پاتے وہ باتھ روم کے در و دیواروں پہ کندہ کرتے ہیں جبکہ جرأت مند اشرافیہ  میڈیا کے مختلف فورم پہ‘ جلسہ جلوس میں یا پھر پارلیمنٹ میں بیٹھ کرقصیدہ پڑھتے ہیں اور اس قوم کی اخلاقی دیوالیہ پن کی خوب منظر کشی کرتے ہیں۔

اس قوم کی اخلاقی دیوالیہ پن کا کہاں تک روئیں؟ اس گناہ گار نے تو ایسے نوجوانوں کو بھی دیکھا ہے جو ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیوں سے مخاطب کرتے ہیں اور انکی انا کو ذرا بھی ٹھیس نہیں پہنچتا‘ ایسے ماں باپ کو بھی دیکھا ہے جو اپنے جوان بیٹوں اور بیٹیوں کو فحش گالیوں سے نوازتے ہیں اور کچھ بھی برا نہیں سمجھتے۔

اگر جاہل عوام علاقائی گالیاں بکتے ہیں تو پڑھے لکھے انٹرنیشنل (بین الاقوامی) گالیوں میں ایکسپرٹ ہیں اور میڈیا والے تو لوکل  و  انٹرنیشنل  گالیوں اور ہر طرح کی فحاشی و بے حیائی کو شوگر کوٹیڈ  بنا  کر عوام و خاص  کے رگ و پے میں اتارتے ہیں۔

اب تو گالی دینا بھی عبادت ہے۔  پہلے تو صرف ایک فرقے نے گالیوں کو اپنی عبادات میں داخل کیا اور اب تو یہ ہر فرقے کی عبادات  کا اہم جز بن گیا ہے۔ امام بارگاہوں  میں بھی گالیاں دی جاتیں ہیں اور مسجدوں میں بھی۔  میخانوں میں بھی گالیاں دی جاتیں ہیں اور خانقاہوں  میں بھی۔  مکانوں میں گالیاں اور کارخانوں  میں بھی‘ بازاروں میں ہیں بھی گالیاں اور کھلیانوں میں بھی۔

ٹی وی اسکرین پہ گالیاں تو اور سوشل میڈیا پہ گالیاں۔
خبروں میں گالیاں اور ڈراموں و فلموں میں گالیاں۔
جلسہ گاہوں میں گالیاں اور جلسہ گاہوں سے باہر بھی گالیاں۔
ہر جگہ ہر زبان پہ  گالیاں ہی گالیاں ہیں۔
عورت کی زبان پہ بھی گالیاں اور مرد کی زبان پہ بھی۔
بوڑھے بھی گالیاں بکتے ہیں اور بچے بھی۔

اور اب تو نومولود بچے کا بھی آذان کی بجائے  پہلے گالیوں سے ہی سواگت کی جاتی ہے۔

اس قوم کا کیا بنے گا؟
اس امت کا کیا بنے گا؟
عقل حیران و پریشان ہے؟

کیا یہ وہی  امت ہے جس کی اخلاق حسنہ کو اعلیٰ اخلاق و  کردار کے اسٹینڈرڈ ’ صاحبِ خلقِ عظیم‘ ﷺ نے درجہ کمال  تک پہنچایا تھا؟  جس اعلیٰ  اخلاق و کردار کی بنیاد پر اس امت نے  اقوامِ عالم کے دلوں میں اپنا جگہ بنایا اور ملک پر ملک فتح کیا تھا؟ 

اخلاق حسنہ  کی تکمیل کا مینویل آج بھی اس امت کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔
ہم ہر چھوٹی بڑی مشین کو اسکی مینویل کے مطابق چلاتے ہیں تاکہ مشین خراب نہ ہو اور دنیا میں ہمیں نقصان نہ پہنچے۔

لیکن آخرت کے نقصانات سے بچنے کیلئے اللہ کی مشین کو قرآن و سنت کی مینویل کے مطابق نہیں چلاتے ۔  اخلاق‘ تہذیب‘ شائستگی اور عفو درگزر جیسی  اعلیٰ و ارفع اوزاروں کے سہارے اپنے آپ کو کنٹرول  نہیں کرتے اور فحش گوئی‘ بدکلامی اور گالیاں وغیرہ کے ذریعے اپنی پرا گندہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئےاپنے آپ کو اور دوسروں کو بے ابرو کرتے ہیں‘ کیونکہ گالی کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی شخص کے بارے میں ایسے کلمات استعمال کیے جائیں جو اسے بے آبرو کردیں ۔  آج کل زبان کے علاوہ  ہاتھوں اور آنکھوں کے اشاروں سے اور حرکات و سکنات سے‘  ڈراموں ‘ کارٹونوں اورمختلف  منظر کشی کے ذریعے بھی لوگوں کو بے آبرو کیا جاتا ہے اور یہ سب بھی گالیاں ہیں۔

کون مسلمان  رسول اللہ ﷺ کے اس حدیث کونہیں جانتا:
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کے منع کیے ہوئے  کاموں سے باز رہے۔ (ابوداود‘ حدیث2448 )

لیکن آج مسلمان ہونے کے دعویدار  زبان سے بھی گالیاں بکتے ہیں اور ہاتھوں اور آنکھوں کے اشاروں سے بھی ۔

گالم گلوچ تو وہ فتنہ ہے جو لوگوں کو کبیرہ گناہوں میں مبتلا کرکے قتل و غارت گری تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا و آخرت دونوں کی تباہی و بربادی  کا باعث بنتا ہے۔ کوئی بھی سلیم الفطرت شخص مذاق میں بھی نہ ہی گالی دے سکتاہے اور نہ ہی گالی سن سکتا ہے۔ گالی چاہے عام انسان کو دی جائے یا خاص کو‘ جانوروں کو دی جائے یا بے جان چیزوں کو‘  زمانے کو  یا حکمرانوں کو یا کسی اور مخلوق کو۔۔۔ نہایت ہی مذموم اور قبیح عمل ہے۔ لیکن مسلم ملک و معاشرے میں مسلمان کہلوانے ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ‘ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام اور امت کے اچھے لوگوں کو اور اپنے والدین کو اور اپنی بیوی بچوں کو یا کسی بھی مخلوق کو  گالیاں دینے سے نہیں چوکتے۔

بعض لوگوں کا تکیۂ  کلام ہی گالی ہے۔  نکی گفتگو گالیوں  سے شروع  ہوکراور گالیوں  پر  ہی ختم ہوتی ہے۔

کچھ لوگ تو بغیر سوچے سمجھے بے دھیانی میں ایسی گالیاں بھی  بک جاتے ہیں کہ اگر اسکی معنی و مفہوم پر غور کیا جائے تو پیارے نبی ﷺ کی یہ فرمان صادق آتی ہے کہ
’’ بلاشبہ بندہ کبھی اللہ کی رضا مندی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے کہ جس کی طرف اُسے دھاین بھی نہیں ہوتا اور اُس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُس کے بہت سے درجات بلند فرما دیتا ہے اور بلاشبہ بندہ  کبھی اللہ کی نافرمانی  کا کوئی ایسا  کلمہ کہہ گزرتا ہے کہ اُس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے‘‘۔ (مشکوۃ 411 از بخاری)۔

آج مسلمان سود کی قباحت کو جانتے ہوئے سود سے تو بچتا ہے لیکن اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینے ( آبرو ریزی کرنے) سے نہیں بچتا جبکہ رسول اللہ  نے فرمایا ہے کہ
بلاشبہ سب سے بڑے سود میں سے یہ بھی ہے کہ ناحق  کسی مسلمان کی آبرو ( ریزی ) کے بارے مین زبان دراز کی جائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۴۲۹از بہیقی)

اور آپ ﷺ نے یہ بھی  فرمایا:
مسلمان کو گالی دینا فسق ( نافرمانی) ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔(صحیح البخاری‘ حدیث 6044)

دین اسلام میں گالی گلوچ کی کوئی گنجائش نہیں اور اس کی مذمت میں بے شمار احادیث ہیں جن کا احاتہ اس مضمون میں ممکن  نہیں۔ بس گالی گلوچ کرنے والے کو اس قبیح عمل سے بچنے کیلئے  اتنا جان لینا کافی ہے کہ اگر اسکی نیکیاں پہاڑ کے برابر بھی ہوئی  تو قیامت کے دن وہ مفلس ہوگا۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کیا تم جانتے ہومفلس کون ہے؟
صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:
ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم  و دینار ہوں اور نہ ساز و سامان۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
)نہیں بلکہ) بلاشبہ میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز‘ روزےاور زکاۃ کے ساتھ آئے گا لیکن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہے‘ کسی پر بہتان تراشی کی ہے‘ کسی کا مال کھایا ہے‘ کسی کا خون بہایا ہےاور کسی کو مارا ہے‘ چنانچہ ان (تمام مظلوموں ) کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی‘ پھر اگر اس کی نیکیاں اس کے ذمے دوسروں کے حقوق ادا ہونے سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گی‘ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم(

آج  اس دنیا میں کوئی مالدار ہے کوئی مفلس۔  لیکن  گالی گلوچ  کرنے والا دنیا اور آخرت میں مالدار ہوکر بھی مفلس ہی رہے گا کیونکہ اس کی ساری نیکیاں ‘ ساری مالداری دوسروں میں تقسیم ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے مفلس ہونے سے بچائے۔ آمین

Wednesday, April 1, 2015

ظالم اپنے ہی اوپر ظلم کرتا ہے

Muslim? مسلمان ؟: ظالم اپنے ہی اوپر ظلم کرتا ہے: ظالم اپنے ہی اوپر ظلم کرتا ہے۔ اللہ پر ایمان نہیں لانے والے کافر ہیں اور ایمان لاکر شرک کرنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں‘ حضور ﷺ ک...

Tuesday, March 31, 2015

مسلم ممالک میں انصاف کہاں؟.... Where is the justice in Muslim countries ?

مسلم ممالک میں انصاف کہاں؟
اکثر لوگ کہتے ہیں آج مسلم ممالک میں انصاف کہاں؟
اور لوگوں کا کہنا ٹھیک ہی ہے۔ مسلم ملک کیا دنیا میں کہیں بھی مکمل انصاف نہیں ہوتا بلکہ آج کل انصاف دلانے کیلئے جو ادارے بنائے جاتے ہیں وہیں سب سے زیادہ نا انصافی ہوتا ہے‘ وہیں انصاف نیلام ھوتا ہے۔
آج دنیا میں جو طاقتور ہے‘  اثر رسوخ والا ہے‘  مالدار ہے وہ اپنی طاقت‘ اثر رسوخ یا مال سے انصاف کو خرید لیتا ہےاور کمزور‘ غریب و مسکین کے ساتھ انصاف نہیں ہو پاتا۔ غنڈے‘ بدمعاش اور لٹیرے  لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں‘ دوکان مکان جائداد پہ غاصبانہ قبضہ کرکے  جینے کا حق چھین لیتے ہیں‘ عزتیں لوٹتے ہیں اور  بہو بیٹیوں کو اپنی عیاشیوں کی بھینٹ چڑھاتے ہیں‘ نوجوان اولاد کو قتل کردیتے ہیں  ۔۔۔۔۔ اور شریف انسان انصاف کیلئےدر بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے۔۔۔  لیکن انصاف نہیں ملتا۔
آج کے حکمراں اور لیڈر ملک میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرکے جہاں عوام کی دولت سے اپنی تجوریاں (نہیں بلکہ غیر ملکی بنک ) بھررہے ہیں اور اپنی عیاشیوں میں لگا رہے  ہیں  وہیں سرمایہ دار ملک میں مہنگائی بڑھا کر اور مزدوروں کو مناسب اجرت نہ دیکرغریب عوام کا استحصال کر رہے  ہیں اور عوام بے چاری کسی منصف کے انتظار میں تڑپ رہی ہے لیکن آج مسلم ملکوں میں ہی کوئی منصف نہیں‘ کوئی نہیں جو ظلم و زیادتی کا خاتمہ کرکے انصاف کے تقاضے پوری کرے۔
پہلے انبیاء علیہ السلاۃ و السلام  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رہنمائی میں انصاف کے تقاضے پوری کرتے تھے:

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۔۔۔۔۔ ﴿٢٥﴾ سورة الحديد
" بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں۔"
اور نبی کریم ﷺ کی بعثت کا مقصد بھی انصاف قائم کرنا ہی تھا جیسا کہ امر ربی ہے:

قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ 
" فرما دیجئے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے" [7:29] سورة الأعراف

اور ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ عملی طور پر انصاف کے ساتھ امت کو انصاف پہ قائم رہنے اور انصاف قائم کرنے کے سارے طریقے سکھا  گئے  جو  ہمارے درمیان قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے۔ جسے آپ ﷺ کے دشمنوں نے بھی نا صرف اقرار کیا  بلکہ اپنے  ملک کے سب سے  بڑی عدالت سپریم کورٹ کے میں نصب کیا۔
Prophet Muhammad Honored By U.S. Supreme Court
as one of the Greatest Lawgivers of the world in 1935
اگرچہ  دشمن نے تعصب میںTHE GREATEST  بجائےONE OF THE GREATEST  لکھا۔
لیکن امریکیوں نے اپنے ملک میں عدل و انصاف قائم کیا اور عروج پہ پہنچے‘ دنیا کے سپر پاور بن گئے اگرچہ تعصب میں وہ ہمیشہ اسلام کی مخالفت ہی کرتے رہے لیکن آپ ﷺ کی اور خلفائے راشدین کی بے شمار قوانین جس کو انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق اچھا سمجھا اپنے ملک میں رائج کیا۔
جبکہ ہم مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے انکی ہراچھے برے کفریہ قانون کو اپنایا اور اللہ کی شریعت کو پس پشت ڈال دیا ‘ نتیجتاً مسلم ممالک میں  کفریہ قوانین و نظام رائج  ہونے کی وجہ کر  عدل و انصاف اور امن و امان مفقود ہے ۔
اس کے باوجود آج ایک عام مسلمان سے لے کر حکمراں تک کوئی بھی شرعی قوانین کے نفاز میں سنجیدہ نہیں۔
ملک اور حکمراں  کو چھوڑ دیں اور آئیے اپنے آپ سے سوال کریں:
کیا ہمارا ظاہری و باطنی کردار، اقوال و اعمال‘ لین دین‘ ملازمت و تجارت‘ حقوق اللہ و حقوق العباد اور دیگر تصرفات اللہ کی شریعت کے تابع ہے؟
کیا ہم واقعی انصاف پسند ہیں اور مندرجہ ذیل فرمانِ الٰہی کے مطابق اللہ کیلئے گواہی دینے کو تیار ہیں تاکہ  ہماری اپنی زندگی میں‘ ہمارے خاندان‘ ملک و معاشرے میں عدل و انصاف کا  نظام قائم ہو:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿١٣٥﴾ سورة النساء
" اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے."

آج امتِ مسلمہ کی اکثریت (چاہے غریب ہو یا امیر‘ عوام ہو یا حکمراں) انصاف پر قائم نہیں اور نہ ہی کوئی اپنی نفس پرستی اور دنیا وی مفاد کو چھوڑ کر اللہ کیلئے گواہی دینے کو تیار ہے اور اس گواہی سے بچنے کیلئے یہود و نصاریٰ کا رائج کردہ جہالت کے فیصلے پر سبرضا مند ہیں اگرچہ سب ہی جانتے اور مانتے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠﴾ سورة المائدة
" کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟"

بے شک اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ  کے فیصلے اور احکام  کو ٹھکرا کر جاہلیت کے فیصلوں کو اپنانا شریعت سے واضح ترین سرکشی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے مقابلے بازی (جنگ) ہے جس کا نتیجہ ہے کہ
آج مسلم ممالک میں عدل و انصاف نہیں رہا اور نہ ہی امن و امان ہے۔
اور
بہترین امت پسماندگی وزبوحالی کا شکار ہے اور دشمنان اسلام اس پر مسلط ہے۔
عدل و انصاف اور امن و امان قائم  کیے بغیر امت کو پسماندگی وزبوحالی سے نکال کر عروج پہ پہنچانا ممکن نہیں اور نہ ہی دشمنوں کا غلبہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ عدل و انصاف کے تقاضے صرف اور صرف اللہ کی شریعت سے ہی ممکن ہے‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے مقابلے بازی (جنگ) سے نہیں۔
اسلام  ہی نے انسانیت کو عدل و انصاف کے زیور سے آراستہ کیا لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت عدل و انصاف کی معنی و مفہوم سے ہی نا واقف ہے اور مروجہعدلیہ یا کورٹ و کچہری میں کفریہ نظام کے تحت جو فیصلے کیے جاتے ہیں اسی کو عدل و انصاف سمجھ  بیٹھی ہے جبکہ اسلام انسان کی زندگی کے ہرعمل سے عدل و انصاف کا تقاضہ کرتا ہے۔
عدل   کا مفہوم ہے’’  کسی چیز کو  اسکے صحیح مقام پہ رکھنا‘‘ ،اور اسی لئے ’’ کسی حق دار کو اس کا پورا حق دینے‘‘  کا نام ہے عدل۔
اورلغت میںانصاف ’’ کسی چیز کو برابر دوٹکڑے کرنے‘‘ کو کہتے ہیں، یعنیانصاف ’’فیصلہ کرنا‘‘ ،’’حق دینا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
اس طرح عدل و انصاف کا مفہوم ہوا’’انفرادی و اجتماعی معاملات میں افراط و تفریطکے بغیراعتدال کے ساتھ حقوق کی  صحیح ادائیگی‘‘۔
یعنی عدل و انصاف نام ہے حقوق کی ادائیگی کا‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادئیگی کا نام‘ خالق کے حقوق اللہ کو اور مخلوق کے حقوق مخلوق کو دینے کا نام‘
بندے پر سب سے پہلا حق اسکے خالق و مالک اللہ رب العزت کا ہے ‘ پھرمحسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔ جس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی  کیلئے ہم سب پر پیارے نبی ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے اسی طرح دیگر حقوق کی ادائیگی کیلئےبھی ہم سب آپ ﷺ کی تعلیمات کے محتاج ہیں۔
لہذا  آپ ﷺ کی تعلیمات کو عام کئے بغیر ( یعنی نفاذِ شریعت کے بغیر )  اور اس پر پوری طرح عمل کئے بغیر نا ہی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا ہوگی اور نا ہی مسلم ملک و معاشرے میں عدل و انصاف اور امن و امان قائم ہو گا۔
آئے ! ہم انفرادی طور پر عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کو گواہ بناتے ہوئےہر طرح کی اور ہر کسی کی حقوق کی صحیح ادائیگی کرنے کی سعی کریں تاکہ  ہمارے گھروں میں‘ مسلم معاشرے‘ ملک و ملت میں عدل و انصاف قائم ہو۔
 کیونکہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر  فرد  ہے  ملت  کے  مقدر  کا  ستارہ
جب ہم بدلیں گے تو ہمارے  بیوی بچے بھی بدلیں گے‘ پھر ہمارا گھر اور معاشرہ بھی تبدیل ہوگا اور ملک و ملت کی تقدیر بھی بدلے گی ‘ عدل و انصاف اور امن و امان قائم ہوگا 
اور کوئی یہ نہ کہے گا کہ
 مسلم ممالک میں انصاف کہاں؟۔۔انشاء اللہ 


Monday, March 30, 2015

ظالم اپنے ہی اوپر ظلم کرتا ہے


ظالم اپنے ہی اوپر ظلم کرتا ہے۔


  • اللہ پر ایمان نہیں لانے والے کافر ہیں اور ایمان لاکر شرک کرنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں‘
  • حضور ﷺ کی  حقوق کا انکار کرنے والے اور آپ ﷺ کو خاتم المرسلین نہیں ماننے والے کافر اور ظالم ہیں‘
  • مسلمان ہونے کے باوجود طاغوت کی راہ اپناتے ہوئے شرک یا بدعات اور گناہ و معاصی کی راہ پر چلنا ‘ ظلم کی راہ اختیار کرنا ہے‘
  • مومن بندے کی جان‘ مال‘ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا اور حقوق غصب کرنا؛ بیت اللہ شریف کو نقصان پہنچانے سےبھی بڑا گناہ ہے‘
  • مسلمان کہلانے کے باوجوحقوق اللہ ‘ حقوق العباد کی ادائیگی نہیں کرنے والے بھی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں‘ 
  • مسلمانوں پر سب سے پہلے اللہ کے حقوق ہیں‘ پھر رسول اللہ ﷺ کے‘ پھر ماں پاب ‘ اہل و عیال ‘ عزیز و اقارب‘ دیگرمسلمانوں کے اور دوسرے قوم کے لوگوں کے۔ قرآن و سنت کے مطابق ان حقوق کی ادئیگی میں انصاف کے تقاضے پوری نہیں کرنا ظلم ہے۔
  • اسلام میں ذمیوں کے بھی حقوق ہیں اور دشمنوں کے بھی حقوق ہیں‘ قرآن و سنت کے مطابق ان حقوق کو ادا نہیں کرنا بھی ظلم ہے‘
  • اسلام میں حیوانات اور اللہ کی ہر مخلوق کے بھی حقوق ہیں اور ان حقوق میں کوتاہی کرنا بھی ظلم کرنا ہے‘

اصل میں ظلم و زیادتی کرنے والا انسان اس فانی دنیا میں کسی پر ظلم کرکے اپنے اوپر ہی ظلم کرتا ہے کیونکہ بالآخر اسے اپنے ہر ظلم و زیادتی کا حساب دینا ہے اورصرف اُسے ہی عذابِ الٰہی سے دوچار ہونا ہے۔ 

انسان اگر صرف اس بات کوسمجھ لے تو اللہ و رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرتے ہوئے نہ ہی اپنے اوپر ظلم کرے اور نہ ہی کسی اور کے اوپر ظلم کرے۔

انسان کے اسی ظلم و خصارے میں پڑنے کی بات کو الله سبحانہ و تعالی نے سورۃالعصر میں زمانے کی قسم کھا کر اپنےبندوں کو سمجھایا ہے۔


وَالْعَصْرِ‌ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ‌ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‌ ﴿٣﴾

ترجمہ: زمانے کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (3)

اور نبی کریم ﷺ نے ایک مومن کو اپنے اوپر یا کسی بھی مخلوق پر ظلم و زیادتی کرنے سے بچنے کیلئے گھر سے باہر نکلتے وقت کی ایک جامع دعا کی تعلیم دی ہے جو دعا تصویر کے میں درج ہے۔

انشاء اللہ گھر سے باہر نکلتے وقت ایمان و یقین کے ساتھ اس دعا کا اہتمام کرنے والے کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی رحمت سے ہر طرح کی ظلم و زیادتی اور فتنہ و فساد سے محفوظ رکھیں گے۔








Thursday, March 19, 2015

VIPs Of Allah اللہ کے وی آئی پی

اللہ کے وی آئی پی


ہم وی آئی پی VIPکلچر کے حامی نہیں بلکہ ہم نے تو کسی وی آئی پی VIP کو قریب سے دیکھا بھی نہیں۔ ایک عام آدمی ہوں اور ایک عام آدمی صرف سڑکوں پر یا کسی جلسے میں وی آئی پی VIP پروٹوکول دیکھ سکتا ہے۔ وی آئی پی VIPs سڑکوں پہ کس ٹھاٹھ سے فرفر کرتے گاڑیاں ڈوڑاتے چلے جاتے ہیں یا پھر کسی جلسہ گاہ میں جب سارے لوگ دھوپ میں جھلس رہے ہوں تو وی آئی پی VIPs  اے سی لگے کنٹینرمیں یا شامیانے کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔

میری طرح ہرعام آدمی کی دل بھی انگڑائیاں لیتی ہوگی کہ کاش میں بھی وی آئی پی VIP  ہوتا۔
خیر اللہ کا شکر ہے کہ ہم عام آدمی ہیں اور اللہ نے ہمیں ایمان کی دولت سے بھی نوازاہے۔

آج ہم وی آئی پی VIP نہیں بن سکتے۔

لیکن  ہم  پیارے رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ عالیشان کے مطابق آج  اپنی  ایمان کی پختگی  اور اپنے اعمالِ صالح کے بدولت مندرجہ ذیل  کسی بھی ایک کٹیگری میں شامل ہو جائیں تو قیامت کے دن ہم اپنےاللہ کے وی آئی پی VIP و مہمان خصوصی ہوں گے اور ہم وی آئی پی VIP  پروٹوکول کے ساتھ عرشِ الٰہی کے چھاؤں میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لے  رہے ہوں گے جبکہ آج کے وی آئی پی  قیامت کے دن ‘ جو دنیا کی پچاس ہزار سالوں کے برابر  ہوگا ‘ جس دن آفتاب بہت نزدیک ہوجائے گا جس کی ہولناک اور تباہ کن  گرمی سےلوگوں کے دماغ  پکنے لگیں گے اور لوگ اپنے اپنے گناہوں کے حساب سے کوئی گھٹنے تک‘ کوئی کمر تک اور کوئی کندھے تک اپنے ہی پسینے میں ڈوبا ہوگا۔

رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:سات ( کٹیگری کے) آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ دیں گے‘ جس دن کہ عرش ِ الٰہی کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا  (یعنی قیامت کے دن اور وہ سات آدمی یہ ہیں):
۱۔۔۔ عادل حکمراں
۲۔۔۔ وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا
۳۔۔۔وہ شخص جو مسجد سے نکلے تو اس کا دل مسجد میں اٹکا رہے‘ یہاں تک کہ دوبارہ مسجد میں چلا جائے
۴۔۔۔  وہ دو آدمی جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں دوستی کی‘ اس کے لئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے
۵۔۔۔ وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں
۶۔۔۔ وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں،
۷۔۔۔ اوروہ شخص جس نے صدقہ کیا تو اس کو ایسا چھپا یا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتا نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟“۔ (ترمذی‘ ج:۲‘ ص:۶۲)

ہم سب دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کا سایہ کے طلب گار ہیں۔ قیامت کا دن بڑا سخت اور مشکل دن ہوگا۔ اس دن  کوئی سایہ نہ ہوگا‘ سوائے عرشِ الٰہی کے سائے کے۔عرشِ الٰہی  کے سائے میں ہونے کا مطلب ہے قیامت کی ہولناکیوں سے‘ ہر سختیوں سے محفوظ و مامون  ہونا۔ تو کیا ہم ان سات خصوصی اقسام کے وی آئی پی میں سے کسی ایک میں  شامل ہوکر عرشِ الٰہی  کے سائے میں  جگہ پا سکتے ہیں؟

آئیے دیکھتے ہیں ان سات اقسام کے وی آئی پی کے کیا خصوصیات ہیں اور ہم اپنے  اندر اِن خصوصیات  کو کیسے پیدا کر سکتے ہیں:

۱۔۔۔عادل حکمران :

 ضروری نہیں کہ کسی کو ملک کی حکمرانی ملے یا کوئی منصف کے عہدے پر فائز ہو بلکہ حدیث میں ہے کہ 
’’ مسلمانو! تم میں سے ہر ایک حکمراں ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کی نسبت سوال کیا جائے گا‘‘ (مشکوٰة،ص:۳۲۰)
لہذاکے مطابق ہر عورت مرد حکمراں ہے اور   کسی بھی طرفداری یا تعصب کے بغیر عدل و انصاف سے  اپنے ماتحتوں سے معاملات کرنا  اور خاص کر نفرت اور دشمنی دکھانے والوں کے ساتھ انصاف کا سلوکایک عام  انسان کوبھی  عادل حکمراں کے فہرشت میں شامل کر دیتا۔

۲۔۔۔ وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا:

جوانی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔اللہ تعالیٰ جوانی کی عبادت کو بہت پسند کرتا ہے اور عبادت گزار نوجوان سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے ۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کو  جوانی میں عبادت کا خیال ہی  نہیں آتااور پڑھاپے میں جبکہ قویٰ کمزور اور دنیا کی  رنگینیاں  معدوم ہونے لگتی ہے تو عبادت میں لگتے ہیں۔
جبکہ   قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا: اپنی جوانی کیسے گزاری؟
جوانی میں انسان کو دنیا کی رنگینیاں اپنی طرف کھینچتی ہیں اور ایسے میں جو نوجوان دنیا کی رنگینیاں چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں مگن ہو اور گناہ و نافرمانی سے دور رہے‘ اسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمتِ خاص سے قیامت کی کٹھن حالات اور سخت گرمی میں اپنی عرش کے سائے جگہ دے گا ۔
لیکن افسوس کہ آج ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اغیار کی سوچ کے یلغار سے  مرعوب ہو کر’’ جوانی انجوائے کرنے‘‘ کے نام پہ  اللہ کی نافرمانیوں میں گزار رہے ہیں۔

۳۔۔۔وہ شخص جو مسجد سے نکلے تو اس کا دل مسجد میں اٹکا رہے‘ یہاں تک کہ دوبارہ مسجد میں چلا جائے:

یعنی ایسا شخص جو مسجد میں نماز و دیگر عبادات بجا لا کر اپنی دنیاوی ضروریات کیلئے نکلے لیکن دنیا میں اس کا دل نہ لگے اور  ہر وقت مسجد جانے کیلئے بے چین رہے۔ عام طور پر لوگوں کےقلوب ملازمتوں، کاروباروں یا گھر وں میں اٹکے رہتے  ہیں۔مسجد میں جانا یا مسجد سے دل لگانا  لوگوں کی  ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی۔ ایسے میں جن کے قلوب اللہ کے گھروں سے منسلک ہوں‘ جو اللہ کے گھروں سے محبت کرتے ہوں اور جو زیادہ سے زیادہ اللہ کے گھروں میں اللہ کے مہمان بن کر رہنا پسند کرتے ہوں‘  وہ قیامت کے دن  اللہ کی  خاص نعمت  یعنی عرشِ عظیم کا سایہ  میں ہوں گے۔

۴۔۔۔  وہ دو آدمی جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں دوستی کی‘ اس کے لئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے:

دوستی تو سب ہی کرتے ہیں اور اپنی دوستی خوش اسلوبی سے نباہتے بھی ہیں۔ تاہم دنیاوی اغراض سے پاک تقوی اور نیکی کی بنا پر اللہ کے لیے دوستی، ایک بہت ہی بابرکت دوستی ہے۔ اس مبارک  دوستی کے تحت جب دو یا دو سے زیادہ لوگ  آپس میں ملتے ہیں تو  اپنے لئے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کیلئے خیر و برکت سمیٹتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں اس دنیا میں بھی بھلائی سے نوازتا ہے‘ ان کے جدا ہونے سے پہلے ہی انہیں معاف کر دیتا ہے اور قیامت کے دن انہیں اپنی خاص رحمت سے وی آئی پی پروٹوکول یعنی عرشِ عظیم کے سائے میں جگہ دے گا ۔

۵۔۔۔ وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں:

تنہائی میں اللہ کو یاد کرنا جب اللہ کے علاوہ کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو‘ ایسا زیادہ تر تہجد کے وقت ممکن ہے ۔ رات کے اندھرے میں نرم گرم بستر اور آرام و راحت بھری نید کو  ترک کرکے عبادتِ الٰہی میں مشغول ہونا بغیر اخلاص‘ محبت اور خوف وخشیتِ الٰہی کے ممکن نہیں۔ اور واضح ہو کہ اِس اخلاص‘ محبتِ ‘  خوف وخشیتِ الٰہی جو دل میں پیدا ہوتے ہیں اگر ان سب کے ساتھ آنکھوں کی آنسو بھی شامل ہو جائے تویہ ایک ایسی عظیم سعادت ہے جس کے  ذریعے سے بندہ اللہ کے وی آئی پی میں شامل ہو کر قیامت کے دن وی آئی پی پروٹوکول یعنی عرشِ عظم کے سائے میں قیام کرے گا۔

۶۔۔۔ وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں:

یہاں نبی کریم ﷺ نے ایک اعلیٰ کردار کی مثال دی ہے اور یہ مثال مرد اور عورت دونوں کیلئے ہے۔
چاہے کوئی اعلیٰ حسب نصب کی با اثر امیر حسین و جمیل عورت کسی مرد کو ناجائز تعلقات کا لالچ دے اور اعلیٰ کردار کا حامل مرد کہہ دے کہ ’’ میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘‘ یا کوئی اثر و رسوخ والا امیر خوبصورت مرد کسی عورت سے ناجائزقربت چاہے اور وہ عورت کہہ دے ’’ مجھے اللہ کا ڈر ہے‘‘۔
نہایت ہی اعلیٰ اخلاق و کردار  کے بغیر اس طرح کی فتنے کا انکار ممکن نہیں جبکہ برائی کی طرف بلانے والی یا بلانے والا اپنی  پرکشش حسب نصب‘ دولت و ثروت اور خوبصورتی سےقائل کرنے اور  لبھانے والی یا والا بھی ہو۔ ایسے اعلیٰ  کردار کے حامل افراد ضرور اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کی حفاظت میں ہونگے اور انہیں قیامت کے دن وی آئی پی پروٹوکول یعنی عرشِ عظیم کا سایہ نصیب ہو گا۔

۷۔۔۔ اوروہ شخص جس نے صدقہ کیا تو اس کو ایسا چھپا یا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتا نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا:

یہ صدقہ کی اعلی ترین قسم  ہے کہ ایک ہاتھ  سے دے تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ اس صدقے کا مقصد نمود و نمائش اور ریاکاری نہیں اور نہ ہی صدقہ دے کر احسان جتانا ہے بلکہ صرف رضائے الٰہی مطلوب و مقصود ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 

" وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے ،نہ دکھ دیتے ہیں، ان کا اجر ان کےرب کے پاس ہے۔ اور (قیامت کے روز) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔"  [2:262]

لہذا ایسے لوگ ہر خوف و خطر سے بے نیاز قیامت کے روز اللہ کے مہمانِ خصوصی  ہونگے اور انہیں عرشِ عظیم کے تھنڈے سائے میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ رکھا جائے گا۔.

اصل میں یہ  سات کے سات اعلیٰ اخلاقی اور روحانی کردار ہیں ‘ جو بندہ مومن ان میں سے ایک کردار کا بھی مظہر ہو گا وہ  اللہ  کے وی آئی پی میں شامل ہو کر قیامت کے دن عرش عظیم کے سائے کا حق دار ہوگا۔
سوچئے‘ سمجھئے اور غور کیجئے ! ہمارا رب کتنا عظیم ہے؛ اپنے بندوں کو مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا‘ آسانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اس دنیا میں بھی‘ قیامت کے دن بھی اور آخرت  کی ہمیشہ کی زندگی میں بھی۔
اور  ہمارے پیارے نبی ﷺ جو کہ رحمۃ للعالمین  اور روؤف  رحیم ہیں‘ خیر و شر کی  ہر بات بتا کر امت کیلئے آسانیاں پیدا کر گئے۔
کیا اب  ہم ایسے بھی نہیں کہ آُ ﷺ کے بتائے ہوئے ان سات کرداروں میں سے کسی بھی ایک کردار کا نمونہ بن کر عرش عظیم کے سائے کا حقدار ہوں؟
آئیے  دعا کرتے ہیں کہ  اللہ سبحانہ  و تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں اِن اعلٰی اخلاقی اور روحانی کردار کا حامل بنا کر اس دنیا میں اپنی رحمتوں کے سائے میں اور آخرت میں اپنی عرشِ عظیم کے سائے میں جگہ دے کر سرخرو کریں۔ آمین

Tuesday, March 10, 2015

عروج کے خواب Urooj Ke Khawab

عروج کے خواب
اکیسویں صدی کا 15واں سال شروع ہو چکا ہے۔
اس صدی کے آغاز سے پہلے مسلم اُمہ خواب دیکھا کرتی تھی کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی‘ مسلم اُمہ کی عروج کی صدی ہوگی۔ لیکن اس صدی کے آغاز میں ہی دشمنان اسلام نے سانحہ  ۹ /۱۱ کے ذریعے پورے اسلامی دنیا کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک کراور پھر قریب ہر مسلم  ملک میں  فساد پرپا کرکے عروج و بلندی پر پہنچنے کے خواب کو چکنا چور کر دیا اور مزید پستی کے طرف دھکیل دیا۔
عروج کے خواب دیکھنے والی اس امت کون سمجھائے کہ عروج کی بنیاد ہے ایمان‘ علم‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اعلیٰ اخلاق جس کے بغیر  عروج کا  خواب  دیکھنا فعلِ عبث ہے۔
ہم  مسلمان عروج چاہتے ہیں‘ خلافتِ راشدہ والی عروج کیونکہ امتِ مسلمہ عروج پہ پہنچی تھی حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں۔
صدیوں سےامتِ مسلمہ  اُسی عروج کو ترس رہی ہے‘ اسی خلافت کی خواہاں ہے اور اسی کیلئے  ساری جدو جہد ہے۔
کچھ نے امت میں ایمان و اعتقاد کی درستی کے بغیر محض جہاد کے ذریعے خلافت قائم کرنے اور عروج پر پہنچنے کی سعی کی تو کچھ نے اہل کفر کے راہ اپناتے ہوئے‘ جمہوریت  اور طاقت‘ کے ذریعے امت کو عروج پہ پہنچانے کے خواب دکھائے۔ ہم  پاکستانی مسلمانوں نے جمہوریت کو اپنایا اور طاقت کا سرچشمہ ’اٹم بم ‘ بھی بنا لیا‘ دنیا کی بہتریں فورس بھی ہمارے پاس ہے ۔۔۔  لیکن عروج  پہ پہنچنے کے بجائے  مسلمانانِ پاکستان مزید ذلالت و مسکنت  کے اندھرے میں گرتے جا رہے ہیں۔
آج بھی اکثر لوگ اپنی ناقص عقل کے مطابق یہی سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ صرف دنیاوی طاقت حاصل کرکے ہی  عروج  پہ پہنچا جا سکتا ہے۔ اگر دنیاوی طاقت ہی قوموں کی عروج کی بنیاد ہوتی تو فرعون کو ہمیشہ عروج پہ رہتا یا پھر قیصر و کسریٰ کا عروج پیوند خاک نہ ہوتا۔
اس امتِ مسلمہ کو عروج پر پہنچانے والے حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِھٰذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَّیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ (صحیح مسلم)
" بے شک! اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید) کی بدولت  اقوام  کو بام عروج تک پہنچاتے ہیں اور دوسری بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرتے ہیں  (یعنی اس پر عمل کرنے والے سرفراز ہونگے جبکہ اس سے منہ موڑنے والے نامراد ہونگے) "۔
اور اس قرآن میں عروج پر پہنچنے کےجو آسان طریقے بتائے گئے ہیں‘ اگر کوئی شخص یا قوم اس پر عمل کر لے تو عروج پہ پہنچنا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہمارے پاس قرآن رہنے کے باوجود ہمیں قرآن کے بتائے ہوئے طرلقے پر عمل کرکے عروج پہ پہنچنا گوارا نہیں۔  جنہوں نے ہمیں ذلت و رسوائی  کے گڑھے میں دھکیلا ہے ان ہی کے طریقے سے ہم عروج پہ پہنچنا چاہتے ہیں اور  روز بروز ہم پر مزید ذلت و مسکنت  کے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں۔
اگر ہمیں عروج پہ پہنچنا ہے‘ اس امت کو اپنا کھویا ہو مقام حاصل کرنا ہے تو ہمیں اُسی طریقے کو اپنانا ہوگا جسے اپنا کر ہمارے اسلاف عروج پہ پہنچے تھے‘ جو ننگے  پاؤں اور  تن پہ پھٹے کپڑے ہونے  کے باوجود اس وقت کے سپر طاقت  قیصر و کسریٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال  بات کرسکتے تھے اور یہ طاقت آتی ہے ایمان کی پختگی سے۔
  • لہذا عروج پہ پہنچنے کی پہلی بنیاد ہے ’’ ایمان ‘‘
اللہ کا فرمان ہے:
۔۔۔ يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۔۔۔ (سورة المجادلة 11)
"... اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا ..."
لہذا اللہ کے اس فرمان کے مطابق بلندی و عروج  پہ پہنچنے کیلئے پہلی بنیاد ہے  ’ایمان‘ اور پھر ’علم‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ’ ایمان‘ کو ’علم ‘ پر فوقیت دی ہے۔ ایمان کے بغیر یا متزلزل  اور کمزور ایمان سے عروج ممکن نہیں۔
آج کلمہ ٔ توحید کی بنیاد پر حاصل کردہ ملک میں مسلمانوں کی ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاة»اور «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ»کی پکار میں کامیابی نظر نہیں آتی۔ آج کامیابی  نظر  آتی ہے جھوٹ میں‘ فریب میں‘ کرپشن میں‘  اور ہر اس حرام  کام میں جو أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ  کی منافی  ہو۔ مسجدوں میں اللہ کے عبادت کرنے والے خال خال ہیں  جبکہ شرک کے کارخانے مزاروں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ‘ روزانہ کسی نہ کسی کی عرس ہے اور وہاں لوگوں کا ازدھام ہے۔
قبروں اور مزاروں کی زینت بننے والوں کو جب معلوم ہی نہیں کہ توحیدِ عبادت  کیا ہوتی ہے تو ایمان باللہ کا سوال کیسا؟
اور جب ایمان باللہ ہی نہیں تو ایمان کے باقی ارکان سے کیا لینا دینا؟
لہذا جس امت  کی اکثریت ایمان سے نا آشنا ہو‘ اسے عروج کہاں؟
جب یہ امتِ مسلمہ ایمان کی حقیقت کو جانتی تھی اور اس کے مطابق  عمل کرتی تھی۔ اس امت کے ایک ایک فرد کا اٹھنا‘ بیٹھنا ‘ چلنا‘ پھرنا ‘ سب اللہ کیلئے اللہ کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تھا ‘ تب اللہ نے اسے ایسی بلندی ‘ ایسی عروج عطا کی تھی جیسی انسانیت کی تاریخ میں کسی اور کو نہیں ملی ۔ اور جیسے جیسے یہ امت ایمان سے دور اور شرک سے قریب ہوتی گئی ‘ اپنی زندگی اللہ کو چھوڑ کر اولیاؤ ں‘ پیروں‘ فقیروں اور مزاروں کے نذر کرنے لگی‘ ذلت و رسوئی میں گرتی گئی اور آج جو حالت ہے وہ سب پر عیاں ہے۔
جس کا ایمان جتنا مضبوط ہے‘ اس کا دین بھی اُتنا مضبوط ہے اور اللہ کے پاس اسکی اُتنی ہی قدر ہے۔
ہمارے ایمان کے اعتبار سے اللہ کے یہاں بھی  ہماری قدر ہے اور اس دنیا میں بھی ہماری قدر ہے۔

ایمان والے کی ایک وجود ہے جس کی گواہی اس کے دشمن بھی دیتے ہیں‘ دور سے اشارہ کرکے کہتے ہیں  ’’ یہ مومن ہے‘ ایمان والا ہے‘ علم والا ہے‘ اس کا ایمان علم کی بنیاد پر ہے‘ جہالت کی بنیاد پر نہیں۔
  • لہذا عروج پہ پہنچنے کی دوسری بنیاد ہے ’  علم
  جسے  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایمان کے بعد ہی ذکر کیا ہے۔ ایمان کا گہرا تعلق ہے علم کے ساتھ۔ بغیر علم کے ایمان کا مکمل ہونا ممکن ہی نہیں۔حقیقی علم تو وہی ہے جس کے ذریعے انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرےاور معرفتِ الٰہی کا ماخذ ہے قرآن و سنت ہے۔ اس لئے رسول ِکریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہ (بخاری)
’’ تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘
اور
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِھٰذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَّیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ (صحیح مسلم) "
 "بے شک! اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید) کی بدولت بہت سی اقوام  کو بام عروج تک پہنچاتے ہیں اور دوسری بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرتے ہیں  (یعنی اس پر عمل کرنے والے سرفراز ہونگے جبکہ اس سے منہ موڑنے والے نامراد ہونگے)"۔
صدیوں سے مسلمانوں کی اکثریت قرآن سے منہ موڑ کر آکسفورڈ کی کتابوں میں عروج ڈھونڈ رہی ہے اور ان آکسفورڈ کی کتابوں سے عروج تو ملا ہے لیکن بے حیائی میں‘ بے غیرتی میں‘ کرپشن میں ‘ جھوٹ و بد عہدی میں اور اللہ اور رسول کی نافرمانی میں۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اسلام دنیاوی تعلیم سے منع کرتا ہے ۔  ہمارے اسلاف نے ہی تو دنیا کو جدید تعلیم سے روشناش کرایا اور نئے علوم ‘ جدید تحقیقات و ایجادات میں نمایا کردار ادا کیا اور اقوام عالم میں معزز بن کر عروج کو پہنچے کیونکہ انہوں نے قرآن کی تعلیم سے کبھی منہ نہ موڑا بلکہ قرآن کو ہمیشہ مقدم رکھا اور اسی وجہ سے ان میں ایمان اور عمل کی مضبوطی برقرار رہی۔
آج مسلمانوں کی اکثریت علم کے میدان میں دنیا کی ہر قوم سے پیچھے ہے۔لہذا جب یہ امت جاہل‘ ان پڑھ اور علم سے نابلد افراد پر مشتمل ہے تو تنزلی و انحطاط اور ذلت و خواری ہی اس کا مقدر ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تو  ’اقراء‘ سے پہلی وحی کا آغاز کرکے اس امت کو علم کی اہمیت بتا دیا تھا‘ اب یہ امت پہلی وحی کی پہلے لفظ پر بھی عمل نہ کرے تو عروج کہاں؟
لہذا عروج کیلئے پھر ’اقراء‘ سے آغاز کرکے علم کے معراج پہ پہنچنا ہوگا۔
  • عروج پہ پہنچنے کی تیسری اور چوتھی  بنیاد  ’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر
‘‘ یعنی’’ اچھے کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے روکنا ‘‘ ہے اور دونوں لازم و ملزوم  ہے ۔ لیکن آج امت کی اکثریت یا تو ان کو چھوڑے ہوئے ہے یا  ان کو جدا جدا کرکے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ان واضح احکام کے معاملے میں بھی منقسم  ہے۔
کچھ ہیں جو صرف  ’’ امر بالمعروف ‘‘ کا  کام کرتے ہیں اور  ’’ نہی عن المنکر  ‘‘ کو چھوڑے دیتے  ہیں یعنی لوگوں کو برائی سے نہیں روکتے‘ کہتے ہیں لوگوں کو نمازی بناؤ ‘ صرف خیر کی سبق دو‘ جب  نمازی بن جائیں گے اور خیر پر عمل کرنے والے ہو جائیں گےتو شر سے  خود بخود بچ جائیں گے۔ شرک‘  بدعات  اور برائی سے روکنے پر لوگ برا مناتے ہیں اور اس سے امت میں تفرقہ پیدا ہوتا ہے حالانکہ ’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  ‘‘ کا کام ساتھ ساتھ نہیں کرکےیہ  خود ہی تفرقے میں پڑے ہوئے ہیں۔
اور کچھ ہیں جو صرف ’’ نہی عن المنکر ‘‘ کا ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں اور خوارج کا کردار ادا کرتے ہوئے  مسلمانوں ہی  کا خون بہا رہے ہیں۔بدترین مخلوق بدترین کام کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘ کا حق ادا کر رہے ہیں۔
قرآن کریم  میں آٹھ مقامات  پر ’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ ‘‘ کا  ساتھ ساتھ ذکر کیا ہے ۔
اگر ان دونوں کو الگ الگ کرنے سے کام چل جاتا یا صرف ایک کو کرنے سے دوسرا خود بخود انجام پا جاتا تو  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کبھی بھی انہیں ساتھ ساتھ بیان نہیں کرتے۔
عروج پہ پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ  ’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  ‘‘ کاکام ساتھ ساتھ اسی طریقے سے کیا جائے جس طرح امت کی عروج کے دور میں کی جاتی تھی۔
عروج کی پہلی اور دوسری بنیاد ایمان اور علم کے بغیر  ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘ کا کام انجام دینا ممکن  نہیں ۔اس لئےاللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اِن احکامِ واجبہ کو ایمان کے ساتھ مربوط کر دیا ہے اور علم کےبغیر معروف اور منکر کا فرق کرنا نا ممکن ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۔۔۔ [3:110]
" تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو..."
بے شک امتِ مسلمہ  بہترین امت ہے اور قیامت تک کیلئے بہترین امت ہے۔  بہترین امت ہونے کی بات سن کرہم پھُولے نہیں سماتے لیکن ہم بہترین امت والا کام کرنے کو تیار نہیں۔اس لئے ہم پر ذلالت و مسکنت  چھا گئی ہے۔
اگر پھر سے بہترین امت بننا ہے‘ عروج پہ پہنچنا ہے تو
" تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے  جو جو لوگوں کو  نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے،  یہی لوگ  فلاح  ( عروج ) پائیں گے۔" وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [3:104]
اور عروج پر پہنچنے والوں کے ا وصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے  ہیں:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ [22:41]
" یہ  وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور  بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔"
اور ایسے لوگ ہی اعلیٰ اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔


  • لہذا عروج پہ پہنچنے کی پانچویں بنیاد ہے ’’ اعلیٰ اخلاق‘


اللہ کے پیارے پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں:
" إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ صَالِحَ الأَخْلاقِ "
" مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا "
اور ایک اور روایت میں 
’’ ‏إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخْلاقِ‏ ‘‘
" مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا "
اور آپ ﷺ بحسن خوبی اعلیٰ ترین اخلاق کی تکمیل کا کام سر انجام دیا‘ جس کی کی تصدیق وتحسین اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی:
 وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ [68:4]
" بےشک آپ (ﷺ)  بلند ترین اخلاق کے درجہ پر  فائز  ہیں "
امت عروج پہ پہنچی تھی اسی اعلیٰ اخلاق کے بنیاد پر جسے صحابہ کرام  ؓ  نے نبی کریم ﷺ سے سیکھا اور اپنایا تھا ‘ جسے سلف صالحین اور امت کے اچھے لوگوں نے اپنایا اور  پورے دنیا میں اسلام  کا بولبالا کیا ‘اسی اعلیٰ اخلاق کی بنیاد پر  کتنے ملک بغیر لڑے فتح کئے گئے جو کہ تاریخ میں  امتِ مسلمہ  کی اخلاقی فتح کی بڑی ثبوت ہے۔
اور آج کے مسلمانوں کی اخلاقی پستی کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔توحید کی علم بردار جب کوئی قوم شرک و بدعات میں پڑتی ہے تو سب سے پہلے اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتی ہے۔آج امت میں ہر طرف شرک و بدعات کی بھر مار ہے لیکن تعجب ہے کہ اکثریت اسے ماننے کو تیار ہی نہیں‘ پھر شرک و بدعات میں رہکر مزید ذلت و مسکنت کے گڑھے میں گرتے رہو‘ اللہ کو کیا پڑی ہے اس امت کو عروج پہ پہنچانے کی اور ہم تو اپنے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے خبردار کردیا ہے۔
حسن اخلاق  جو ہمارے اثاثے تھے اب ہمارے پاس نہیں رہے‘ ہمارے دشمنوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ آج  جب کوئی مسلمان کچھ دنوں کیلئے یورپ یا امریکہ ہو آتا ہے تو وہاں کے لوگوں کی اخلاق کے گُن گاتے نہیں تھکتا۔ جس محفل میں بیٹھتا ہے بس ایک ہی راگ الاپتا ہے: ارے دنیا تو وہ ہے‘ سچ بولنے والے لوگ ہیں‘ امانت دار ہیں‘ مدد کرنے والے ہیں‘ وقت اور قانون کے پابند ہیں وغیرہ وغیرہ۔

آج ہم اپنا اخلاق قرآن و سنت کے مطابق نہیں بناتےمگر دوسروں کی اخلاقیات کی  طرف للچائی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں‘ اگرچہ ان میں کچھ اچھائی ہے لیکن ان کے دل ناپاک ہیں اور جس کا دل ناپاک ہے اس کا پورا وجود ناپاک ہے۔ناپاک دل کے ساتھ چاہے وہ مسکرائے‘ لوگوں کی مدد کرے‘ سچ بولے‘ کچھ بھی کرے سب ناپاک ہے۔
کافر‘ مشرک‘ منافق پلید ہیں اورجو ان کی راستے کو اختیار کرتے ہیں وہ بھی ناپاک و پلید ہیں۔ان کی اخلاق کی پلیدگی ان کی ازدواجی  زندگی میں جھلکتا ہے کہ سب سے زیادہ مغربی لوگ اپنی ازدواجی معاملات میں خیانت کرتے ہیں‘  وفاداری نام کی کوئی چیز  ہی نہیں‘  خیانت ہی  خیانت اور جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔اگر یہ باہر دوسروں سےخوش اخلاقی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو صرف اپنی مفاد کیلئےمنافقت کے ساتھ‘ یقین نہیں تو قریب رہ کر دیکھ لیں۔
لیکن کاش کہ یہ جاہل انسان  یورپ امریکہ جانے سے پہلے طاق پہ رکھے قرآن سمجھ کر پڑھ لیتا‘ نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا مطالعہ کیا ہوتا‘ صحابہ کرامؓ  اور سلف صالحین کی سیرت  و کردار دیکھا ہوتا تو اعلیٰ اخلاق کیا ہوتا ہے‘ اخلاق کا معیارکیا ہوتاہے  اسے پتہ چلتا۔ اسے بہت پہلے ہی معلوم ہوجاتا کہ سچائی‘ امانت داری‘ معاونت‘ وقت کی پابندی اور قانون کی پاسداری وغیرہ  کا جوسبق  اسلام نے دیا ہے ‘ نہ کسی مذہب نے دیا ہے اور نہ کسی تہذیب نے۔
اخلاق صرف خوش گفتاری اور خندہ پیشانی کا نام نہیں۔
عالی اخلاق انسان کے پاک قلب و روح میں پرورش پاتاہے‘ اس کے وجود میں جھلکتا ہے اور اس کے عمل کے ذریعہ اس کا اظہار ہوتا ہے جس کی بنیاد ہے ایمان اور توحید جو قرآن و سنت کے علم سے بلندی پر پہنچتاہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر  سے بر قرار رہتا ہے۔
اور یہی پانچ  ( یعنی ایمان‘ علم‘  امر بالمعروف و نہی عن المنکر  اور حسن اخلاق ) بنیاد ہیں امتِ مسلمہ کی روج پہ پہنچنے کی جو سارے کے سار ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی صراطِ مستقیم ہے۔
اِن بنیادوں کو مستحکم کئے بغیر جتنی بھی  اٹم بم بنالیں‘ ساری دنیا کی اصلحے اکٹھے کرلیں ۔۔۔ عروج نہیں ملے گی۔
امت کو  شرک‘ بدعات و خرافات  سے نکالے بغیر ۔۔۔ عروج نہیں ملے گی۔
اگر امت کی عروج کے خواہاں ہیں تو آنکھوں میں بندھی  شرک‘ بدعات و خرافات  کی  پٹیاں اتاریں‘ اپنی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں‘ قرآن و سنت کو سامنے رکھ کر دیکھیں  کہ کیا  ان بنیادوں کو مستحکم کئے بغیر عروج ممکن ہے‘ کیا شرک کومٹائے بغیر عزت مل سکتی ہے۔
آئے ایمان کو سمجھیں‘ علم حاصل کریں‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اللہ  کے راستے کو اپنائیں اور اپنا  اخلاق بہترین بنائیں۔
دوسروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کے بجائے‘ اپنے آپ کو قرآن و سنت کے مطابق اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنائیں تاکہ لوگ کہیں کہ حسن اخلاق یہ ہوتا ہے۔
جیساکہ ہمارے گزرے ہوئے سلف صالحین کے طرف  لوگ اشارہ کرکے کہتے تھے:
یہ لوگ حقدار ہیں زمیں پہ حکمرانی کی‘ اِن سے لڑے بغیر ملک ان کے حوالے کردو۔
پھر اللہ کی زمین پہ امت کا راج ہوگا‘ امت کو بلندی ملے گی اور امت عروج پہ پہنچے گی۔