Monday, February 23, 2015

Protest or Revolt ... احتجاج یا خروج

بچہ دنیا میں آتے ہی احتجاج کرتا ہے۔
احتجاج کرنا انسان کی جبلت میں شامل ہے اور اس کا پیدائشی حق ہے۔
احتجاج کرنا جائز ہے۔ احتجاج جائز امور کیلئے جائز طریقے سے کیا جائے تو  یہ مستحسن ہے اور اس احتجاج سے خیر کا پہلو نکل آتا ہے‘ ملک و ملت کی تقدیریں بدل جاتیں ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں جو احتجاج  کیا جاتا ہے جسے عام اردو میں ’’ ہڑتال‘‘ اور انگریزی میں STRIKE کہتے ہیں اس سے ’’ ملک کو  اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے‘‘۔
مغرب میں مروجہ احتجاج  کا طریقہ یعنی  STRIKE  صنعتی انقلاب کے دوران شروع  ہوا جو پہلے غیر قانونی رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قانونی اور جمہوریت کا حصہ بن گیا۔
بر صغیر میں موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے سب سے پہلے (1918میں) احتجاج کا یہ طریقہ یورپ سے در آمد کیا اور اس کا نام دیا ’’ ہڑتال ‘‘ ۔
گاندھی گجرات کا رہنے والا تھا اور گجراتی زبان سے ہی ’’ ہڑتال ‘‘ کا لفظ اخذ کیا جس کے معنی ہیں ’ ہر جگہ تالا ‘ ۔۔۔۔ یعنی ’ ہر جگہ تالا ‘ لگا دیا جائے  ۔
دیکھا جائے تو مروجہ طریقۂ احتجاج  یا STRIKE یا ہڑتال یہود و نصاریٰ اور مشرکوں کے لیڈر گاندھی  کا ایجاد کردہ ہے۔ احتجاج کے یہ بدترین طریقہ ہے  لیکن پھر بھی یہ جمہوریت کا حصہ ہے اور جمہوری نظام میں جائز ہے لیکن اسلامی  نقطۂ نظر سے حرام ہے۔
مروجہ احتجاج یا ہڑتال کی جاتی ہے بازاروں اور دفتروں کوزبردشتی  بند کرواکر‘ راستے بلاک  کرکے‘ ہوائی فائرنگ اور جگہ جگہ آگ جلا کر عوام میں خوف و ہراس پیدا کرکے‘  سڑکوں پر اشتعال انگیز بینرز لگاکر اور بینرز اٹھائے ریلیاں نکال کر‘  دھرنا دے کر‘   اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعےفریقِ ثانی پر بہتان لگا کر اور  گالی گلوچ کرکے۔ دوکانوں‘ مکانوں ‘ گاڑیوں  اور غریب کی اکلوتے ٹھیلے وغیرہ کی توڑ پھوڑ کرکے اور انہیں جلاکر۔ کوئی ایسے احتجاج یا ہڑتال کی خلاف ورزی کرے تو اس  کے جان اور مال  کو تقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسے بھی قتل کرکے وغیرہ وغیرہ  ۔
یعنی مروجہ احتجاج یا ہڑتال   ’’ ہر طرح کی ظلم و زیادتی کے ساتھ عوام الناس میں افرتفری‘ خوف و ہراس اور  امن و امان کا مسٔلہ پیدا کرنے‘‘  کا نام ہے۔
’’ ہڑتال ‘‘  کی کال دینا اور اس میں شرکت کرنا ناجائز اور حرام ہے‘ چاہے یہ اسلام کے نام پر یا عوام کی فلاح و بہوبود کیلئے ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں کوئی خیر‘ کوئی بھلائی نہیں بلکہ شر ہی شر اور نقصان ہی نقصان  ہے۔

۱۔ اس کے حرام ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ غیر مسلموں کا  طریقۂ احتجاج ہے جو ظلم کوظلم سے اور برائی کو برائی سے مٹانے کا طریقہ ہے جبکہ اسلام کا طریقہ کار ہے:

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ  (سورة المؤمنون 96)
" آپ برائی کو احسن (سب سے بہتر) طریقہ سے دفع کریں۔"

۲۔  مروجہ احتجاج  فتنہ اور فساد  کا موجب ہے جبکہ اسلام کی تعلیمات ہے:

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ... (سورة الأعراف 56)
" اور زمین میں فساد برپا نہ کرو "

... وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ...  (سورة البقرة 119)
" اورفتنہ قتل سے زیاده سخت ہے"

۳۔ ہڑتال کی وجہ کر روزانہ اجرت پر کام کرکے کھانے والےغریب و مسکین کام نہیں کرسکتے لہذا وہ اور  انکے بچے بھوکے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بیمار علاج کیلئے بھی نہیں جا سکتے۔ بے شمار لوگ اذیت میں دن گزارتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کی اکثریت کو اذیت پہنچتی ہے اور مسلمانوں کو ایذا پہنچانا  کبیرہ گناہ ہے، قرآن کریم میں ہے:

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا  (الأحزاب:۵۸)
" اور وہ لوگ جو ناحق مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا پہنچاتے ہیں انھوں نے یقیناً  بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھا یا۔"

رسول اللہﷺ نے فرمایا:
 مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ (متفق علیہ) توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۳۱۔ فتح)و مسلم (۴۱)

۴۔ ظلم اور زیادتی کے بغیر کوئی ہڑتال کامیاب نہیں ہوتا ۔ جہاں ہڑتال ہوگا وہاں ظلم ہوگا۔ صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ سماجی اور ریاستی  سطح پر بھی ہڑتال  کے ذریعے  ایک فریق دوسرے  فریق پر ظلم  کرتا ہے ۔ 
اور اﷲ ظالموں کو پسند نہیں کرتا،
... وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴿ سورة آل عمران: 57 ﴾

۵۔ مروجہ احتجاج یا ہڑتال  کی جاتی ہے عوام کو حقوق دلانے کیلئے یا پھر ظلم و زیادتی کرنے والے کو سزا دلوانے کیلئے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عوام کو کی جائز مطالبات پورے ہوئے ہوں یا اصل قصوروار کو سزا ملی ہو بلکہ الٹا بے شمار بے قصور عوام کو ہی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ جبکہ اللہ کا قانون ہے:

۔۔۔ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ ۔۔۔ (سورة الأنعام: 164)
" اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے۔"

۶۔  مروجہ احتجاج یا ہڑتال میں مسلمان کی جان اور مال عزت و آبرو کو تقصان پہنچایا جاتا ہے جبکہ اسلام مسلمان کی جان‘ مال‘ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا حرام قرار دیتا ہے۔
''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے، یعنی اس کا مال، اس کی عزت اور اس کا خون۔ ہر مسلمان کو اس شر سے بچنا چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔'' (ابوداؤد)

۷۔ مروجہ احتجاج یا ہڑتال میں کسی کو قتل کر دینا عام سی بات ہے جبکہ اللہ کا فرمان ہے:

 وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (سورة النساء : 93)
" اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے"

۸۔  مروجہ احتجاج  یا ہڑتال حرام و ناجائز طریقے سے حکومت پر قابض ہونے کا ایک طریقہ ہے اور یہ خروج کی ہی ایک شکل ہے۔ اس طریقے سے اگر حکومت پر قبضہ کر بھی لیا جائے تو بھی اس سے کوئی خیر نہیں آئے گی کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:

... وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ...( سورة الأعراف 58)
" اور جو خراب اور ناکارہ ہے (اس سے) تھوڑی سی بے فائدہ چیز کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔"

ہمیشہ سے وطنِ عزیز میں حکومت گرانے کیلئے یا حکومت پر ناجائز طریقے سے قابض ہونے کیلئے مروجہ احتجاج یا ہڑتال کا راستہ اپنایا گیا اور ملک کو اربوں  کھربوں کا نقصان پہنچا کر عملاََ کمزور کیا گیا۔ عوام الناس کی جان اور مال کا نا تلافی نقصان کیا گیا۔ اسی ناجائز احتجاج کے بل بوتے پر ملک دو لخت ہوا ۔
لیکن ملک میں چیونکہ کفریہ جمہوری نظامِ حکومت ہے اور یہ اسی جمہوریت کی ناجائز اولاد ہے۔ اس مروجہ  احتجاج  یا ہڑتال کو قانونی تحفظ حاصل ہے‘ اس کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔  لیکن ملک و ملت کو اگر مزید نقصانات سے بچانا ہے تو اسکے خلاف قانون بنانا ہوگا اور اگر قانون نہیں بن سکتا تو اس کے خلاف عوام الناس کی ذہن سازی کرنی ہوگی کہ یہ اصل میں احتجاج نہیں بلکہ خروج کی ایک شکل ہے ۔
اگرچہ جمہوریت بھی ناجائز ہے لیکن جب ایک حکومت آجائے تو اس کے خلاف خروج کبیرہ گناہ ہے۔
واللہ اعلم باالصواب

Monday, February 16, 2015

یہود کے نقش قدم پہ

اللہ رب العالمین نے اپنی رحمتِ بیکراں سے اس امت کو ہر خیر اورشر سے آگاہ کرنے 
اورعروج وزوال کے نشخے بابرکت کتاب قرآن مجید کی صورت میں ہمیشہ کیلئے عطا کیا۔

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِھٰذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَّیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ (صحیح مسلم)

" اللہ اس کتاب (قرآن مجید) کی بدولت قوموں کو بام عروج تک پہنچائے گا اور بہت سوں کو نیچے گرائے گا۔"

 (یعنی اس پر عمل کرنے والے سرفراز ہونگے جبکہ اس سے منہ موڑنے والے نامراد ہونگے)۔
 امتِ مسلمہ کتاب اللہ یعنی قرآن مجید کے احکامات پر عمل کرنے کی بدولت دو مرتبہ سرفراز  ہوئی یعنی دنیا میں سپر پاور بنی اور اس سے منہ موڑکر دو مرتبہ ہی فساد فی الارض کی مرتکب ہو کر  پستی کی گہرائیوں میں جا گری اور آج تک گرتی جا رہی ہے۔
" مسلمانوں نے دو مرتبہ زمین میں فسادمچایا "۔۔۔۔۔ جس کے بارے میں اللہ نےقرآن میں پہلے ہی بتا دیا تھا ۔
آپ کہیں گے ارے صاحب یہ کیا بہکی بہکی باتیں ہیں ؟
دو مرتبہ فساد فی الارض تو یہودیوں نے مچائی تھیجس کا ذکر قرآن کریم میں ہے:
وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴿٤﴾ سورة الإسراء

" اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو قطعی طور پر بتا دیا تھا کہ تم زمین میں ضرور دو مرتبہ فساد کرو گے اور (اطاعتِ الٰہی سے) بڑی سرکشی برتو گے"

ہم مسلمان  ان آیتوں کو سرسری پڑھتے ہیں اوراسے یہودیوں کے کھاتے میں ڈال کر آگے نکل جاتے ہیں۔ جبکہ قرآن کا ایک ایک حرف امتِ مسلمہ کیلئے ہے۔ کاش ہم مسلمان ان آیتوں پر تدبر و تفکر کرکے یہودیوں کی تاریخ سے سبق لیتےتو  زفساد فی الارض میں ملوث ہونے اور تباہ ، ذلیل و خوار ہونے سے بچ جاتے۔
جی بالکل صحیح!
اللہ نے ہمیں بتا دیا تھا کہ یہودیوں نے دو مرتبہ فساد مچایا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نے کہا تھا:
" تم اپنے سے پہلے کے لوگوں (یہود و نصاری) کی پیروی کروگے ۔"
یہ تنبیہ تھی امتِ مسلمہ کیلئے لیکن ہم مسلمانوںنے اس پر غور نہیں کیا اور نہ فساد فی الارض کی روش سے بچنے کے بجائے  ہاتھ در ہاتھ، بالشت در بالشت، یہودیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زمین میں  فساد در فساد برپا کیا۔
آئیے یہودیوں کے  فسادات و سزائیں  اور ان کی پیروی میں امتِ مسلمہ کے فسادات اور سزاؤ کا جائزہ لیتے ہیں ۔
یہودیوں کا پہلا فساد اور  سزا ئیں :
حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت یہودی سپر پاور تھے لیکن ان کے بعد فرقوں میں بٹ کر اور آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کر لیں۔ ایک سلطنت اسرائیل اور دوسری سلطنت یہودیہ کہلا ئی۔
یہودی تورات کی تعلیمات سے دور ہوتے گئے۔ توحید ِ باری تعالیٰ کی جگہ ہمسایہ قوموں کی مشرکانہ عقائد کو اپنایا۔ امراء و حکمراں نے مشرک عورتوں سے شادی رچائی۔ حکومتی طاقت و ذرائع سے شرک و بدعات کی پرچار عروج کو پہنچی‘ بےشمار فرقے وجود میں آئے‘ خانہ جنگی و خون خرابہ عام ہوا۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہودیوں کے اس پہلے فساد کے سدباب   کیلئے پے در پے نبی بھیجے لیکن یہ قوم جس شرک و بدعات اور اخلاقی انحطاط کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی ۔ انبیاء علیہ السلام کی بات ماننا تو دور کی بات الٹا انہیں قتل کرتی رہی۔ آخر کار اللہ کا غضب نازل ہوا۔ اللہ نے اشوریوں کی شکل میں اپنے سخت گیر جنگجو بندوں کو ان کی سرکوبی کیلئے بھیجا جو ہزاروں اسرائیلیوں کو تہ تیغ و ملک بدر کیا اور باقی بچنے والوں کو مذہب بدلنے پر مجبور کرکے سلطنت اسرائیل کا نام و نشان ہمیشہ کیلئے مٹا دیا ۔

دوسری طرف سلطنتِ یہودیہ میں جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ علیہم الصلوۃ و السلام کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہودیہ کے بنی اسرائیل بُت پرستی اور بد اخلاقیوں و بغاوت سے باز نہ آئے تو اللہ نے بابل کےبادشاہ بخت نصر کے ذریعے انہیں سخت سزا دی۔ بخت نصر ایک سخت حملہ کر کے سلطنتِ یہودیہ کے تمام چھوٹے بڑےشہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو جلاوطن کرکے تتر بتر کر دیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بُری طرح ذلیل اور پامال ہوئے
امت مسلمہ کا پہلا فساد اورسزا ئیں:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی سلطنت سپر پاور بنی لیکن جلد قرآنی تعلیمات  سے دور ہوتے ہوئے بیرونی سازشوں کے تحت اپنے حکمرانوں کے قتل‘ خانہ جنگی‘ فرقہ واریت اور اخلاقی انحطاط کے زد میں آکر تنزلی کا شکار ہونے لگی۔ اگر یہودی ابنیاء علیہم السلوۃ و السلام کے قاتل ٹھہرے تو امت مسلمہ اصحابِ رسول اور امت کے اچھے لوگوں کے قتل میں ملوث ہوئی۔ پھر بھی چیونکہ زیادہ تر لوگ صاحبِ قرآن ‘   موحد اور اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے خانہ جنگی و دیگر فسادات کے باوجود امت عروج پہ رہی ۔ اس بام عروج میں امتِ مسلمہ کی بھی ( یہودیوں کی طرح) دو سلطنتیں تھی۔ ایک عرب اور اسکے ملحقہ علاقے میں ’ سلطنت اسلامیہ‘ اور دوسری یورپ میں ’ سلطنت اندلسیہ‘۔
جب پہلی بارامت مسلمہ میں فساد (فرقہ پرستی ‘ خانہ جنگی اور اخلاقی انحطاط ) عروج پر پہنچا تو اللہ نے اپنے ایسے سخت جنگ جُو بندے بھیجے جو ایک طرف تاتار کے روپ میں اسلامی سلطنت کی دارلخلافہ بغداد اور ہر چھوٹے بڑے شہر کے لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا تو دوسری طرف نصرانیوں کے روپ میں سلطنت اندلسیہ کو صفحۂ ہستی سے ہمیشہ کیلئے مٹا دیا۔
(آجکل چیونکہ لوگوںلمبی مضمون نہیں پڑھتے اس لئے یہود اور مسلمانوں کے فسادات و سزا ئیں بہت اختصاراً تحریر کی گئی ہے‘ اصل مقصد مماثلت دکھانااور اس سے سبق لینا ہے۔صاحبِ ذوق  تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں)
یہ تھا امتِ مسلمہ کا پہلا فساد جو بنی اسرائیل کے پہلے فساد سے پوری طرح مماثلت رکھتی ہے، اور اسکی سزا بھی بالکل اسی طرح ملی جیسی یہودیوں کو ملی تھی۔


جس کے بارے میںاللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے ہیکا فرمادیا تھا جو قرآن میںکچھ یوں ہے

فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا  
" چنانچہ جب پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو ہم نے (تمہاری سرکوبی کیلئے) اپنے کچھ ایسے سخت جنگجو بندے بھیج دیئے جو تمہاری آبادیوں میں چن چن کر تمہیں مارا اور (اللہ) کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔" (سورة الإسراء  آیت نمر۔5)
 یہود اور امتِ مسلمہ کے فساد اور سزا کی اس مماثلت سے جب ہم یہ کہتے کہ امتِ مسلمہ کو تنبیہ کرنے کیلئے ان آیتوں کو قرآن کا حصہ بنایا گیا تھا ‘ کیا کوئی ہے جو اس کا انکار کردے۔
خیر انکار کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ 

امت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو قرآن کا بٹوارا کرتے ہیں۔

آج اگر  وحدتِ امت کیلئے‘  امت کی اصلاح‘ شرک ا رو بدعات کی روک تھام  کیلئے قرآن کی کوئی آیت پیش کی جائے  تو  جھٹ کہہ اٹھتے ہیں :
یہ آیت تو کفارِ مکہ کیلئے نازل ہوئی تھی ۔۔۔
یہ تو مشرکین کیلئے ۔۔۔
یہ تو منافقوں کیلئے ۔۔۔
یہ تو یہود کیلئے ۔۔۔
یہ تو نصاریٰ کیلئے ۔۔۔
آپ کفار‘ مشرکین ‘ یہود و نصاریٰ کے بارے نازل کردہ آیتوں کو مسلمانوں پہ فٹ کرتے ہیں ‘ آپ تو امت میں تفرقہ چاہتے ہیں۔
یعنی قرآن  مسلمانوں کیلئے نہیں ۔۔۔بلکہ قرآن  تو کفار‘ مشرکین اور یہود و نصاریٰ کیلئے تھا اور ہے۔
 ۔۔۔ آپ امت میں تفرقہ چاہتے ہیں۔
افسوس صد افسوس ! آج قرآن و سنت سے دلائل دینے والے تو فساد و تفرقہ چاہتے ہیں
اور 
قرآن و سنت کو چھوڑنے والے امت کو شرک و بدعت کی راہ پہ لےجانے والے 
وحدتِ امت کے خواہاں ٹہرے۔

خواہانِ  وحدتِ امت  ! آئے قرآن کو حَکم مانئے ! جس طرح حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے قرآن کو حَکم مان کر امت کو فساد سے نکالا تھا اسی طرح اپنے تنازعات طے کیجئے اور امت کو فساد سے نکالئے‘ امت کو قرآن سے جوڑیئے ‘ پھر اللہ کی نصرت آئے گی اور یہ امت ایک بار پھر بامِ عروج پہ پہنچے گی۔
ورنہ وہ دن دور نہیں کہ یہودیوں کے طرح مسلمانوں کو بھی کوئی گیس چیمبر میں ڈال کر ان کی چربی سے ’ مسلم سَوپ ‘ بنائے کیونکہ یہودیوں کے نقش قدم پہ چلنے والی  اس امت کو سزا بھی یہودیوں جیسا ملتا ہے۔
اور اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔
وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا
(یہود اور امتِ مسلمہ کے دوسر ے فساد اور سزا کی کی داستان اور اسکی مماثلت اگلی قسط میں)

Saturday, February 14, 2015

یوم ویلنٹائن Valentine Day

یوم ویلنٹائن Valentine Day


محبت ایک طاقتور انسانی جذبہ‘
ایک ایسی قوت جو کسی زندگی کو آباد کرسکتی ہے‘
برباد بھی کرسکتی ہے اور دل توڑ بھی سکتی ہے۔
آج جب دنیا اس جذبے کی اہمیت پر یوم ویلنٹائن منا رہی ہے۔
ہمیں ہر طرف انواع ا اقسام کے مصنوعی دل نظر آرہے ہیں۔
۔۔۔ آج ویلنٹائن ڈے ہے۔
۔۔۔ دلوں کا دن ہے۔
۔۔۔ سرخ گلابوں کا دن ہے۔
۔۔۔  شاعری کا‘ خوشیوں کا اور سب سے بڑھ محبت کا دن  ہے۔
یہ دن ویلنٹائن کارڈ‘ سرخ پھول‘ سرخ دل اور چاکلیٹ وغیرہ کے تحائف دے کر منایا جاتا ہے۔
یہ کیسی محبت ہے جو تحفوں کی محتاج ہے؟
یہ کیسی محبت ہے جو سال میں صرف ایک دن جاگتی ہے؟
یہ کیسی محبت ہے جو نفرت‘ جلن اور احساسِ کمتری پیدا کرتی ہے؟
یہ کیسی محبت ہے جو بے حیائی کی کھلی اجازت دیتی ہے؟
یہ کیسی محبت ہے جس کی بنیاد عورت مرد کی رومانی ملاقاتیں (Dates)' رقص و موسیقی ہے؟
یہ کیسی محبت ہے جس میں دوسروں کی بہن‘ بہوں‘ بیٹی کی عزت سے کھیلا جاتا ہے؟
یہ کیسی محبت ہے جس میں بے شمار کنواری لڑکیاں اپنی کنوارپن شادی سے پہلے ہی کھو دیتیں ہیں؟
یہ کیسی محبت ہے جس میں عشق و محبت کے سارے بخارات ([fever) اسلام کو پسِ پشت ڈال کر نکالا جاتا ہے؟
اور اسلامی  تعلیمات کا سرِ عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔۔۔۔
اس کے با وجود آج اکثر مسلم ممالک میں مسلمان اس دن کو منانے لگے ہیں اور یہ ایک تہوار بن چکا ہے۔
آخر مسلمان کہلانے والے اس عالمی  بے حیائی کا دن تہوار کے طور پر کیوں منانے لگے ہیں؟
کیا یہ مسلمانوں کا قومی  یا دینی تہوار ہے؟
تہوار تو قوموں کی پہچان ہوتی ہے ۔۔۔۔  دین یا ثقافت کی علامت ہوتی ہے؟
نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا آزادانہ  میل جول اور ایک دوسرے سے کو سرخ مصنوعی دل کے تحفے کے ساتھ محبت کا اظہار کرنا اس بے حیائی کی بیہودہ تہوار کا لازمی جز ہے۔
کیا محبت کے اظہار کا یہ بیہودہ طریقہ مسلمانوں کا ہے؟
کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟
بحیثیت مسلمان لڑکے اور لڑکی کی دوستی بالکل منع ہے۔
سورۃ النساء میں ایک عورت کے اوصاف یوں بیان کئے گئے ہیں:
’’ پاکیزہ نہ شہوت پرست‘ نہ خفیہ دوست بنانے والیاں‘‘

اے امت کے نوجوانوں! ایمانداری سے جواب دیجئے ۔۔۔ کیا ویلنٹائن  میں شہوت پرستی اور خفیہ دوستی شامل نہیں؟ 
 کیا کوئی مسلمان اتنا بھی بے غیرت ہوسکتا ہے کہ اپنی بہن‘ بیٹی یا بیوی  کو خفیہ دوستی کرنے کی اجازت دے؟
جب نہیں دے سکتا تو پھر اپنی پشت درجے کی خواہشات اور شہوانیت کی پیروی میں ویلنٹائن ڈے کیوں مناتا ہے؟

اسلام میں شادی ایک ایسا خوبصورت بندھن ہے جس میں محبت ایک موسمی یا وقتی جذبہ نہیں ‘ نہ ہی یہ ظاہری خوبصورتی پر منحصر ہے بلکہ ایک پر سکون رشتہ ہے جس کی بنیاد آپس کا پیار‘ رحم اور احساس ذمہداری ہے۔ کیا اس کے بغیر بھی محبت قائم رہ سکتا ہے ؟
کیا ان مصنوعی دلو کے تحفے سے دل میں محبت پیدا ہو سکتا ہے؟
اے امت کے نوجوانوں! کیا آپ نے کبھی سونچا کہاس  دل میں محبت کون پیدا کرتا ہے؟
اور جس ہستی نے ہمارے دلوں میں محبت محسوس کرنے کا جذبہ پیدا کیا کیا ہمارے اس دل میں کبھی اس ہستی سے محبت کا احساس پیدا ہوا؟
محبت تو مومن کی ایمان کی کسوٹی ہے‘ جسے محبت کو پیدا کرنے والے خالق ہی نے بیان کیا ہے:

... وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ ۗ ...   سورة البقرة 165
" ایمان والے  سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔"

امت کے نوجوانوں کو آج کیا ہوگیا ہے؟
قصور تو ہمارا ہی ہے !!!
کیا ہم نے اپنے نوجوانوں کے دلوں  میں رب کی محبت پیدا کی ہے؟
کیا ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں رب کی محبت اتنی گہری ہے کہ وہ اس ذاتِ واحد کو پہچان سکیں  ؟
اور
رب کے بعد کیا ہم اور ہمارے نوجوان رسول اللہ ﷺ  اپنا آڈیل مانتے  ہوئے ان سے اس درجے کی محبت کرتے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے فرمایا  ہےکہ ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ تم میں سے کوئی ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھ سے اپنے باپ‘ اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت نہ کرے۔‘‘
امت کے نوجوانوں! تم مسلمان ہو۔ اللہ نے مسلمان گھرانے میں پیدا کرکے تمہیں بڑا شرف بخشا ہے۔
 اپنی محبت کو اتنی سطحی نہ بناؤ کہ اس کی ابتداء اور انتہا فقط انسانوں تک محدود ہو جو عین اس وقت بے وفا ثابت ہوتے ہیں جب ہمیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور جب ہم اس دنیا سے جارہے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
ایک مسلمان کو ’’ حقیقی محبت ‘‘ صرف بس ایک دفعہ اور ہمیشہ کیلئے ہوتی ہے اور وہ اپنے خالق‘ مالک اور رب سے ہوتی ہے۔ وہ ذات پاک جو ازل سے ابد تک قائم ہے۔ مسلمانوں کیلئے اس رب کی محبت ایک معنی دیتی ہے اور اسکی تمام مخلوق سے محبت کرنا سکھاتی ہے نہ کہ ’ ایک خاص ‘ سے۔

مسلمانوں کے پاس محبت کے اظہار کیلئے ایک دن پہلے سے موجود ہے اور وہ ہے ’’ عید الاضحیٰ ‘‘ جب مسلمان ایک جانور کی قربانی دے کر اس جذبے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اللہ کیلئے اپنی ہر چیز قربان کر سکتے ہیں۔ وہ سیدنا ابراہیم ؑ کی سنت دہراتے ہیں جنہونے اللہ کے حکم پراپنی محبوب ترین چیز‘ اپنے نوجوان بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔
محبت قربانی چاہتی ہے۔
 اگر ہم اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں تو  اپنی ناجائز اسلام کی منافی خواہشات کی قربانی دینی ہوگی۔
  ہم اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں تو ویلنٹائن ڈے کا بائیکاٹ کرنا ہوگا‘ ہمیشہ کیلئے اسلامی معاشرے سے اسے نکال پھینکنا ہوگا۔
آئیے عہد کریں اور
 اپنے رب سے خالص ترین محبت کا اظہار کریں:
اے میرے رب! اب میں اپنا چہرہ تیری طرف کرتا ہوں
میری دنیا اور تمام آسمانوں کے مالک !!
میں تیرا اور صرف تیرا ہوں
میری نماز اور میری قربانی صرف تیرے لئے ہے
ایک وعدہ میرا ہے
کہ اپنی جان دون گا تیرے لئے
ایک عہد میرا ہے
کہ میری عبادت صرف اور صرف تیرے لئے ۔۔۔۔

Wednesday, February 11, 2015

برائیلر مرغی سے گدھے تک

برائیلر مرغی سے گدھے تک


تب یہ عُقدہ کھلا کہ ہمارے حکمراں چند سالوں سے ’ گدھے گدھے‘ کی رٹ کیوں لگاتے رہے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ انسان جو کچھ کھاتا ہے اس کا اثر اس کی شخصیت پر پڑتا ہے ۔
کہ ہمارے حکمراں کو بڑے بڑے ہوٹلوں میں گدھے کا گوشت کھا کر جو ڈھکار آتا ہے وہ کچھ یوں ہے:

دھرنا دیتے تو گدھے کے آنے کا خطرہ تھا۔۔۔ اعتزاز
عدالتوں کے اختیارات محدود کریں گے تو گدھے آتے رہیں گے۔۔۔چیف جسٹس
آمریت گدھا ہے ۔۔۔ نواز شریف
برادری کے نام پر کھڑے ہونے والے گدھے ۔۔۔ عمران خان

لیکن تعجب ہے کہ گدھے کا گوشت کھاکر ان حکمرانوں کی صرف زبان ہی بدلی ہے شخصیت و کردار میں تو کوئی فرق نہیں آیا۔
۔۔۔ شاید ان گدھوں کے گوشت میں بھی کچھ ملاوٹ ہے ۔۔۔
ورنہ گدھا تو بہت شریف اور انسان دوست جانور ہے لیکن ابھی تک شرافت و انسان دوستی تو ہمارے حکمرانوں کے قریب بھی نہیں پھٹکی۔
محنت مشقت کرنا اور دوسروں کا بوجھ اٹھانا گدھوں کا خاص وصف ہے ‘ ہمارے حکمراں تو ابھی تک نہایت ہی کام چور ہیں‘ محنت مشقت کرنا اور دوسروں کا بوجھ اٹھانا تو دور کی بات ہے ‘ گدھے کا گوشت کھاکر یہ اتنے موٹے ہو گئے ہیں کہ اپنا بوجھ بھی اٹھا لیں تو ۔۔۔
خیر چھوڑیں !
دوسرے گدھے کو دیکھ کر ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے والی خوبی تو ان میں آئی ہے نا۔۔۔
نہیں سمجھے ! کیا آپ نے نہیں دیکھا ! ہمارے حکمراں مخالف پارٹی کے خلاف کیا خوب ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے ہیں۔
اور ووٹ ملتے ہی عوام کو بڑی سنگین دولتّی بھی مارتے ہیں بالکل اصلی گدھے کی طرح جس طرح رنگیلا نے ’’ انسان اور گدھا ‘‘ میں دولتّی مار کر دکھایا تھا۔
اور یہی ان کی اصلیت ہے۔
جو عوام نہیں سمجھتی۔
کیونکہ عوام برائیلر مرغی کھاتی ہے۔
اور جیسا کھانا ویسی شخصیت و کردار۔۔۔۔
لیکن عوام کے کھانے میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے‘ اس لئے وہ پوری کی پوری برائیلر مرغی بن گئی ہے اور برائیلر مرغی کی طرح کڑک کرنے کی طاقت بھی کھو چکی ہے۔
بالکل ہی بے حِس ہو چکی ہے۔
پنجرہ کھلا بھی ہو تو آزادی کی سعی نہیں کرتی۔
ہر الیکشن میں انہی حکمرانوں کی غلامی میں جانا پسند کرتی ہے۔
اور جب یہ حکمراں سنگین دولتّی مارتے ہیں
۔۔۔ ڈلروں کی قیمت بڑھاکر
۔۔۔ پیٹرول کی قیمت بڑھا کر
۔۔۔ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کرکے
۔۔۔ آٹا ‘ چاول و چینی وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ بہران پیدا کرکے
مہنگائی پہ مہنگائی بڑھاتے ہیں ۔۔۔
تو یہ بے حِس عوام صرف اپنی اوپر کی کمائی بڑھانے کی سونچتی ہے۔
حلال ذرائعے سے اوپر کی کمائی بڑھانے کی فکر کرنا کوئی بری بات نہیں۔
لیکن آج حلال کے علاوہ جو حرام ہاتھ لگے اسے اوپر کی کمائی کا نام دیا گیا ہے۔
آج لوگوں کو اس حرام اوپر کی کمائی کی زیادہ فکر ہے چاہے اسکے لئے بیوہ‘ یتیم‘ مسکین‘ بوڑھا و لاچار کو کتنا ہی لاچار کیوں نہ کرنا پڑے۔

۔۔۔وقت کے مطابق خواہشات و ضروریات بڑھ گئی ہے‘ اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔
۔۔۔ماں باپ بیوی بچوں کی خواہشات پوری کرنی ہے‘اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔
۔۔۔بچے کو اعلیٰ انگلش اسکول میں پڑھانا ہے‘ اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔
۔۔۔ بیوی کو فیشن ایبل بنانا ہے‘ اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔
۔۔۔پوش ایریا میں مکان خریدنا ہے‘اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔
۔۔۔مکان کی آرائش و تزین کیلئے‘ اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔
۔۔۔اچھی گاڑی کیلئے ‘ اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔
۔۔۔سوسایٹی میں ناک رکھنا ہے‘ اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔
۔۔۔ مہنگائی بڑھی ہے تو اوپر کی کمائی چاہئے۔۔۔

آج اکثر کو اس اوپر کی کمائی کی فکر دامن گیر ہے‘ اس کمائی کی حلال یا حرام کی نہیں ‘ الاّ ماشاء اللّٰہ۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ نے چودہ سو برس قبل ہی ہمیں بتا دیا تھا: ” لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا ،جس میں انسان اس بات کی طرف دھیان نہیں دے گا کہ وہ جو مال حاصل کررہاہے؛ حلال ہے یا حرام ۔“(مشکوٰة:۲۴۱)

مال کے حلال یا حرام ہونے کے طرف آج اکثر کا دھیان ہی نہیں جاتا‘ کھانے کے حلال ہونے پہ بہت توجہ ہے۔
جبکہ حرام مال سے حاصل کیا گیا ہر لقمہ حرام ہے ‘ ہر کھانا حرام ہے اور ” اس سے نشو ونما پانے والا جسم ، جہنم کی آگ کے زیادہ لائق ہے۔“(ابن کثیر:۱/۲۶۷)

اب یہ بڑے بڑے مشہور ہوٹلوں میں جاکر گدھے‘ کتے یا خنزیر کھائیں یا ابپنے گھروں حلال ذبیح جانور کا گوشت ‘ اگر حرام مال سے ہے تو بات تو ایک ہی ہے ۔ پھر واویلا کیسا؟
ان ہوٹلوں میں ایک وقت میں 20-25 ہزار خرچ کرنے والے کتنے ہیں ‘ جن کی کمائی حلال کی ہوتی ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تو ہمیں حلال پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے اور گدھا‘ کتا ‘ خنزیر اور مردار وغیرہ ناپاک کو حرام کیا ہے۔


یَا أَیُّہَا النَّاسُ کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْضِ حَلاَلاً طَیِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)

”اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ اورشیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو کہ وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے۔ سورة البقرة

لیکن حلال پاکیزہ چیزیں حلال کمائی سے ہی کھانا حلال ہے۔

آج گدھا‘ کتا ‘ خنزیر اور مردار وغیرہ ناپاک کھانے ہاتھ لگانا تو دور کی بات ان کے نام سے ہی کراہت اورگھن محسوس کرنے والے حرام یعنی اوپر کی کمائی کو کتنا مرغوب رکھتے ہیں جبکہ یہ حرام کی کمائی کی حرمت ان حرام کھانوں سے بھی زیادہ ہے کیونکہ اس سے پورا معاشرہ تباہ ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے معاشرے کی ناسور یعنی اوپر کی کمائی کو ختم کریں۔

جب حرام یعنی اوپر کی کمائی ختم ہوگی تو کوئی حرام کمانے کیلئے کتا‘ گدھا یا مردار کا گوشت نہیں بیچے گا۔

ورنہ لوگ حرام کماتے رہیں اور حرام کھاتے رہیں‘ چاہے حرام مال سے حرام یا حرام مال سے حلال پاکیزہ چیزیں کھائیں۔۔۔ بات تو ایک ہی ہے۔

عوام برائیلر مرغیاں کھا کھا کر بے حِس ہوتی رہے گی ور حکمراں گدھے کھا کھا کر عوام کو دولتّی مارتے رہیں گے ۔

اور یوں برائیلر مرغی سے گدھے تک کا سفر جاری رہے گا۔